کر نفسی خواہیشات پوری ابھی من کالا نہیں ہےمیں سے م
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
پھر اندھیروں میں کر گلہ رب کیوں اُجالا نہیں ہے
کر نفسی خواہیشات پوری ابھی من کالا نہیں ہےمیں سے م
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والامیں سے م
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
کس سے کریں خوشبو کا تقاضہمیں سے م
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
Agar woh poch len humse kaho kis baat ka gham haiطلوعِ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشتِ شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں
Hai yeh bazaar jhoot ka bazaarکر نفسی خواہیشات پوری ابھی من کالا نہیں ہے
پھر اندھیروں میں کر گلہ رب کیوں اُجالا نہیں ہے
Woh ek baat bohot sakht kahi thi tum neکیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
Haan theek hai main apni ana ka mareez hunکس سے کریں خوشبو کا تقاضہ
وہ پھول تو اب مرجھا چکا ہے
Saamna aaj Ana se hogaلوگوں سے ملتا تھا غم میں سہہ نہ سکا
اکیلا رہنا چاہتا تھا مگر رہ بھی نہ سکا
Is darja mujhe khokla kar rakha hai ghamon neکون دے گا سکون آنکھوں کو
کس کو دیکھوں کہ نیند آجائے
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیںلوگوں سے ملتا تھا غم میں سہہ نہ سکا
اکیلا رہنا چاہتا تھا مگر رہ بھی نہ سکا
ہم ساحرِ اقلیمِ سخن بن گئے ساغرؔکس سے کریں خوشبو کا تقاضہ
وہ پھول تو اب مرجھا چکا ہے
کر نفسی خواہیشات پوری ابھی من کالا نہیں ہے
پھر اندھیروں میں کر گلہ رب کیوں اُجالا نہیں ہے
لوگوں سے ملتا تھا غم میں سہہ نہ سکا
اکیلا رہنا چاہتا تھا مگر رہ بھی نہ سکا
کاش کوئی تو ایسا ہو
جو اندر سے باہر جیسا ہو
کون دے گا سکون آنکھوں کو
کس کو دیکھوں کہ نیند آجائے
Inhi patharon pe chal ke agar asako to aaoکون دے گا سکون آنکھوں کو
کس کو دیکھوں کہ نیند آجائے
لمبی باتیں، وضاحتیں نہیں اب مختصر سی کرتا ہوں
کتابِ زندگی دنیا کہ آگے اب کھولنے سے ڈرتا ہوں
ہے سے ہکس سے کریں خوشبو کا تقاضہ
وہ پھول تو اب مرجھا چکا ہے
Inhi patharon pe chal ke agar asako to aaoکون دے گا سکون آنکھوں کو
کس کو دیکھوں کہ نیند آجائے
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا