عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" صّلو کما رایتمونی اصّلی"
(نماز اسی طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو-)
صحیح البخاری، الاذن، باب الاذن للمسافرین اذا کانو اجماعۃ والاقامۃ، حدیث:231
یعنی ہوبہو میرے طریقے کے مطابق سب عورتیں اور سب مرد نماز پڑھیں- پھر اپنی طرف سے یہ حکم لگانا کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیّت اختیار کریں اور مرد کوئی اور---------یہ دین مین مداخلت ہے-
یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے شروع کرکے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہنے تک عورتوں اور مردوں کے لیے ایک ہیّت اور ایک ہی شکل کی نماز ہے- سب کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، استراحت، قعدہ، اور ہر ہر مقام پر پڑھنے کی دعائيں یکساں ہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بتایا-
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Asalam o alikum to all muslims
مرد و عورت ہاتھ کہاں تک اٹھائیں
دلیل نمبر1
عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے۔‘‘
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔
مرد و عورت کے طریقہ سجدہ میں فرق
دلیل نمبر4
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)
ترجمہ: حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے۔
دلیل نمبر5
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص631)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے۔‘‘
دلیل نمبر6
عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
دلیل نمبر7
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ۔
(سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود)
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
دلیل نمبر8
عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا۔
(مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔‘‘
دلیل نمبر9
عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ۔
(سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا۔
مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
دلیل نمبر10
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ … وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
(الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔‘‘
دلیل نمبر11
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
دلیل نمبر12
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
(جامع المسانید ج 1ص400 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے ؟
دلیل نمبر13
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
دلیل نمبر14
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
(التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
دلیل نمبر15
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ
(الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا)
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ
(1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
(الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔ (2) :
قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
(رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔ (3):
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
(کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔ (4):
قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
(الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
جزاک اللہ محسن اقبال بھائی ۔۔۔۔ بہت ہی قیمتی اور عمدہ معلوماتی شئیرنگ ہے ۔۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ آپ نے تمام فرق احادیث سے واضح فرمائے ۔۔۔
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
@lovelyalltime bhai jazak Allah khaira
@i love sahabah apki posting se muje ek baat to bilkul samaj agai ke aap ka mazhab sirf aur sirf zayeef riwayat mangharat riwayat aimma ke manmani aqwal par hi tika hy, na to aap ko sahi ahadees ki zaroorat hy na quran ke hukm ki ke Allah ke Rasool alayhisalam ki itaa'at karo ke farman ki rabbana yahdeek

@hoorain yahan logon ko gumrah kia jaa raha hy ek to i love sahabah ne hadees ka arabi matan poora nahi pesh kia dusra hadeeson se khud saqta matlab teesra zayeef hadees chohta hadees ke muqable me olama ke aqwal aur phir magharat riwayat

aap inse iski sanad aur arbi matan ka mutalba aur sahi tarjuma talab karo nahi to ye post idar rehne ke kabil nahi hy shukria
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
قال ابراهيم النخعي : تفعل المراة في الصلاة كما يفعل الرجل
ذكره ابن ابي شيبة
''حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (امام ابوحنیفہ کے استاذ) فرماتے ہیں عورت اسی طرح نماز پڑھے جس طرح مرد پڑھتا ہے ''
مصنف ابن ابی شیبہ الجزالاول والتانی رقم الصفحہ 75
 
  • Like
Reactions: Detective

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
تم غیر مقلدین بھی عجیب و غریب لوگ ہو ۔۔۔۔ پہلے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہو کہ مقلدین حدیث پر نہیں اپنے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب مقلدین اپنا عمل حدیث سے ثابت کردیں تو وہ ساری حدیثیں ضعیف ہوجاتیں ہیں ؟؟؟
اور وہ بھی آپ جیسے عظیم محدث کے کہنے سے ؟؟؟
یہی انجام ہوتا ہے تم جیسے عام مسلمانوں کو مجتہد بننے کی تعلیم دینے کا ۔۔۔۔ کہ خود کو مجتہد ہی نہیں بلکہ محدث بھی سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔چاہے اصول حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو ؟؟؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آئی لو صحابہ بھائی نے احادیث کے متن پورے نہیں شئیر کئے ۔۔۔۔ تو ہوا میں تیر چلانے کے بجائے آپ خود متن شئیر کرکے فرمائیں کہ کون سی حدیث کا متن پورا شئیر ہونے سے حدیث کے مفہوم میں فرق پڑ رہا ہے ؟؟؟
اور رہی بات اسناد کی بحث کی تو آپ جیسے عظیم محدث کو تو معلوم ہوگا کہ سند کے ضعف سے متن کا ضعف لازم نہیں آتا ۔۔۔۔ تو اسناد کی بحث سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا ہے ۔؟؟؟
باقی حضرت ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے
رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔ اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏
(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
باقی میرے محدث بھائی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟؟
امید ہے کہ آگر آپ اپنے مولویوں کی باتوں پر اندھادھند اعتماد کرنے کے بجائے اپنے نعرہ (کہ کسی کی تقلید نہیں بلکہ تحقیق کرنا چاہیے) پر عمل کرتے ہوئے تحقیق کی عادت ڈال لیں گے تو کئی ایک اشکالات آپ کے یوں ہی دور ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
[DOUBLEPOST=1349350023][/DOUBLEPOST]
قال ابراهيم النخعي : تفعل المراة في الصلاة كما يفعل الرجل

ذكره ابن ابي شيبة


''حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (امام ابوحنیفہ کے استاذ) فرماتے ہیں عورت اسی طرح نماز پڑھے جس طرح مرد پڑھتا ہے ''


مصنف ابن ابی شیبہ الجزالاول والتانی رقم الصفحہ 75

لیجیے قارئین کرام ۔۔۔ ان غیر مقلدوں کی دو رخی ۔۔۔۔ اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے تو کسی امتی کا قول نہیں صرف اور صرف حدیث چاہیے
جیسا کہ ان کے نعروں سے کئی ایک تھریڈ بھرے پڑے ہیں
اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ یہ کون سی احدیث ہے ؟؟؟؟
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
مرد وعورت کی نماز میں تفریق اور امتیاز اگرچہ ہمارے نزدیک عورت کے امتیازی مسائل میں شامل نہیں- کیونکہ اس تفریق و امتیاز کی کوئی صحیح دلیل نہیں- لیکن چونکہ برادران احناف نے مرد اور عورت کی نماز میں تفریق کررکھی ہے، بنابریں اس کی اصل حیثیت کی
وضاحت ہمارے نزدیک ضروری ہے، اس لیے ذیل میں اس کی بابت بھی چند گزارشات اور احناف کے دلائل پر کچھ تجصرہ درج ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے اس کے مطابق احناف نے تین مسئلوں میں عورتوں کا مردوں سے مختلف طریقہ نماز بتلایا ہے-
٭ رفع الیدین میں، کہ مرد کانوں تک تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عورت کاندھے تک-
٭ عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف-
٭ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے جب کہ مرد کو حکم ہے کہ اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھے-
٭ پہلے امر کے متعلق ہماری نظر سے کوئی معقول دلیل نہیں گزری، جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے سواء قیاس کے کوئی دلیل نہیں-
چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں
" حنفیہ جو کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک، اس کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ ستر (پردہ) ہے- مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے-"
(فتح الباری، الاذان:2/287)
اور امام شوکانی لکھتے ہیں
" یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، اس کی بابت دونوں کے درمیان فرق کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے- اس طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صراحت منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک- حنفیہ کے اس مذہب کی کوئی دلیل نہیں ہے-"
(نیل الاوطار، باب رفع الیدین وبیان صفتہ مواضعہ: 2/206)
٭ دوسرے امر میں ہاتھ باندھنے میں احناف مرد وعورت کے درمیان جو تفریق کرتے ہیں، اس کی بھی کوئی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے- یہ بھی اس امر بین شہادت ہے کہ احناف کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے- اس لیے احادیث صحیحہ کی رو سے مرد و عورت دونوں کے لیے یہ ہی حکم ہے کہ وہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں-
مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم نے اپنی کتاب "اختلاف امت اور صراۃ مستقیم" میں سارا زور تیسرے فرق کے اثبات پر لگایا ہے- کیونکہ اس مسئلہ میں ان کے پاس ایک مرسل روایت اور ضعیف آثار ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرسل روایت محدثین اور علمائے محققین کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں- علاوہ ازیں یہ مرسل روایت بھی منقطع ہے اور اس میں ایک راوی (سالم) متروک ہے-
(ملاحظہ ہو: الجوھر النقی، تحت السنن الکبری، بیھقی، ج2)
٭ اس مرسل و منقطع روایت کے علاوہ مدیر "بینات" نے کنزالعمال کی ایک روایت بیہقی اور ابن عدی کے حوالے سے بروایت عبداللہ بن عمر رض نقل کی ہے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ
رانوں سے چپکالے- ایسے طور پر کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو-"
( ص:90-91)
یہ روایت سنن بیہقی میں موجود ہے لیکن موصوف نے یہ روایت سنن بیہقی کے بجائے کنز العمال کے حوالے سے نقل کی ہے- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سنن بیہقی میں اس کی سند بھی موجود ہے اور اس کی بابت امام بیہقی کی یہ صراحت بھی ہے کہ
"اس جیسی (ضعیف) روایت کے ساتھ استدلال نہیں کیا جاسکتا-"
(ملاحظ ہو، سنن بیہقی، ج2، ص:222-223)
بہرحال ارکان نماز میں مرد و عورت کے درمیان شریعت اسلامیہ نے کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا- بلکہ ایک عام حکم دیا ہے
{صلو کما رایتمونی اصلی}
"تم نماز اس طرح پرھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"
(صحیح بخاری)
اس حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں جب تک کہ کسی واضح نص سے عورتوں کی بابت مختلف حکم ثابت نہ کر دیا جائے- جیسے عورت کے لیے ایک خاص حکم یہ ہے کہ وہ اوڑہنی (پردے) کے بغیر نماز نہ پڑھے، اسی طرح حکم ہے کہ باجماعت نماز پرھنے کی صورت میں اس کی صفیں مردوں سے آگے نہیں، بلکہ پیچھے ہوں- اگر نماز کی ہیئت اور ارکان کی ادائگی میں بھی فرق ہوتا تو شریعت میں اس کی بھی وضاحت کردی جاتی- اور جب ایسی صراحت نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں تفریق کا کوئی جواز نہیں-
[DOUBLEPOST=1349350692][/DOUBLEPOST]
تم غیر مقلدین بھی عجیب و غریب لوگ ہو ۔۔۔۔ پہلے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہو کہ مقلدین حدیث پر نہیں اپنے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب مقلدین اپنا عمل حدیث سے ثابت کردیں تو وہ ساری حدیثیں ضعیف ہوجاتیں ہیں ؟؟؟
اور وہ بھی آپ جیسے عظیم محدث کے کہنے سے ؟؟؟
یہی انجام ہوتا ہے تم جیسے عام مسلمانوں کو مجتہد بننے کی تعلیم دینے کا ۔۔۔۔ کہ خود کو مجتہد ہی نہیں بلکہ محدث بھی سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔چاہے اصول حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو ؟؟؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آئی لو صحابہ بھائی نے احادیث کے متن پورے نہیں شئیر کئے ۔۔۔۔ تو ہوا میں تیر چلانے کے بجائے آپ خود متن شئیر کرکے فرمائیں کہ کون سی حدیث کا متن پورا شئیر ہونے سے حدیث کے مفہوم میں فرق پڑ رہا ہے ؟؟؟
اور رہی بات اسناد کی بحث کی تو آپ جیسے عظیم محدث کو تو معلوم ہوگا کہ سند کے ضعف سے متن کا ضعف لازم نہیں آتا ۔۔۔۔ تو اسناد کی بحث سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا ہے ۔؟؟؟
باقی حضرت ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے
رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔ اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏
(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
باقی میرے محدث بھائی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟؟
امید ہے کہ آگر آپ اپنے مولویوں کی باتوں پر اندھادھند اعتماد کرنے کے بجائے اپنے نعرہ (کہ کسی کی تقلید نہیں بلکہ تحقیق کرنا چاہیے) پر عمل کرتے ہوئے تحقیق کی عادت ڈال لیں گے تو کئی ایک اشکالات آپ کے یوں ہی دور ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
[DOUBLEPOST=1349350023][/DOUBLEPOST]
لیجیے قارئین کرام ۔۔۔ ان غیر مقلدوں کی دو رخی ۔۔۔۔ اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے تو کسی امتی کا قول نہیں صرف اور صرف حدیث چاہیے
جیسا کہ ان کے نعروں سے کئی ایک تھریڈ بھرے پڑے ہیں
اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ یہ کون سی احدیث ہے ؟؟؟؟





[DOUBLEPOST=1349351378][/DOUBLEPOST]
آپ لوگوں کی معلومات کیلئے بتاتا چلوں کہ حدیث میں اس طریقہ سے زمین پر ہاتھ بچانا منع ہے جس طرح کتا بچاتا ہے۔
بخاری و مسلم میں حدیث ہے
رواه البخاري ( 788 )
ومسلم ( 493 )
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سجدے میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی اپنے بازو کو (سجدے میں) اسطرح نہ بچھائے جسطرح کتا بچھاتا ہے۔"
حدیث میں أَحَدُكُمْ کا حکم عام ہے اور اس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نام پر کیا کیا بدعات کو پھیلایا جارہا ہے اور پھر مظلوم امام کی طرف الٹے سیدھے مسائل کو منسوب کیا جاتا ہے افسوس صد افسوس!!! احادیث سامنے موجود ہیں لیکن پھر بھی ان کے مقابلے میں آراء و اقوال کو مقدم کیا جارہے ۔ اس کا نتیجہ گمراہی ، بربادی، فرقہ پرستی اور تفرقہ کے علاوہ کیا نکلتا ہے جو آج ہم اپنے ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہیں۔
اللہ ہمیں قرآن وسنت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کو ناٍفذ کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
@lovelyalltime bhai jazak Allah khaira
@i love sahabah apki posting se muje ek baat to bilkul samaj agai ke aap ka mazhab sirf aur sirf zayeef riwayat mangharat riwayat aimma ke manmani aqwal par hi tika hy, na to aap ko sahi ahadees ki zaroorat hy na quran ke hukm ki ke Allah ke Rasool alayhisalam ki itaa'at karo ke farman ki rabbana yahdeek

@hoorain yahan logon ko gumrah kia jaa raha hy ek to i love sahabah ne hadees ka arabi matan poora nahi pesh kia dusra hadeeson se khud saqta matlab teesra zayeef hadees chohta hadees ke muqable me olama ke aqwal aur phir magharat riwayat

aap inse iski sanad aur arbi matan ka mutalba aur sahi tarjuma talab karo nahi to ye post idar rehne ke kabil nahi hy shukria
@hoorain
@Don
@RedRose64
@Zee Leo

yaha kon kis ko kis kis tara gumhara karahay hay ye ap yaha ache tara dek saktay hay...[DOUBLEPOST=1349371461][/DOUBLEPOST]
تم غیر مقلدین بھی عجیب و غریب لوگ ہو ۔۔۔۔ پہلے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہو کہ مقلدین حدیث پر نہیں اپنے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب مقلدین اپنا عمل حدیث سے ثابت کردیں تو وہ ساری حدیثیں ضعیف ہوجاتیں ہیں ؟؟؟
اور وہ بھی آپ جیسے عظیم محدث کے کہنے سے ؟؟؟
یہی انجام ہوتا ہے تم جیسے عام مسلمانوں کو مجتہد بننے کی تعلیم دینے کا ۔۔۔۔ کہ خود کو مجتہد ہی نہیں بلکہ محدث بھی سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔چاہے اصول حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو ؟؟؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آئی لو صحابہ بھائی نے احادیث کے متن پورے نہیں شئیر کئے ۔۔۔۔ تو ہوا میں تیر چلانے کے بجائے آپ خود متن شئیر کرکے فرمائیں کہ کون سی حدیث کا متن پورا شئیر ہونے سے حدیث کے مفہوم میں فرق پڑ رہا ہے ؟؟؟
اور رہی بات اسناد کی بحث کی تو آپ جیسے عظیم محدث کو تو معلوم ہوگا کہ سند کے ضعف سے متن کا ضعف لازم نہیں آتا ۔۔۔۔ تو اسناد کی بحث سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا ہے ۔؟؟؟
باقی حضرت ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے
رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔ اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏
(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
باقی میرے محدث بھائی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟؟
امید ہے کہ آگر آپ اپنے مولویوں کی باتوں پر اندھادھند اعتماد کرنے کے بجائے اپنے نعرہ (کہ کسی کی تقلید نہیں بلکہ تحقیق کرنا چاہیے) پر عمل کرتے ہوئے تحقیق کی عادت ڈال لیں گے تو کئی ایک اشکالات آپ کے یوں ہی دور ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
[DOUBLEPOST=1349350023][/DOUBLEPOST]
لیجیے قارئین کرام ۔۔۔ ان غیر مقلدوں کی دو رخی ۔۔۔۔ اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے تو کسی امتی کا قول نہیں صرف اور صرف حدیث چاہیے
جیسا کہ ان کے نعروں سے کئی ایک تھریڈ بھرے پڑے ہیں
اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ یہ کون سی احدیث ہے ؟؟؟؟
nasir bhai siraf or siraf dowa kijye k Allah hidayat day in sab ko ameen summa ameen
 
  • Like
Reactions: whiteros

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
تم غیر مقلدین بھی عجیب و غریب لوگ ہو ۔۔۔۔ پہلے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہو کہ مقلدین حدیث پر نہیں اپنے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب مقلدین اپنا عمل حدیث سے ثابت کردیں تو وہ ساری حدیثیں ضعیف ہوجاتیں ہیں ؟؟؟
اور وہ بھی آپ جیسے عظیم محدث کے کہنے سے ؟؟؟
یہی انجام ہوتا ہے تم جیسے عام مسلمانوں کو مجتہد بننے کی تعلیم دینے کا ۔۔۔۔ کہ خود کو مجتہد ہی نہیں بلکہ محدث بھی سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔چاہے اصول حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو ؟؟؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آئی لو صحابہ بھائی نے احادیث کے متن پورے نہیں شئیر کئے ۔۔۔۔ تو ہوا میں تیر چلانے کے بجائے آپ خود متن شئیر کرکے فرمائیں کہ کون سی حدیث کا متن پورا شئیر ہونے سے حدیث کے مفہوم میں فرق پڑ رہا ہے ؟؟؟
اور رہی بات اسناد کی بحث کی تو آپ جیسے عظیم محدث کو تو معلوم ہوگا کہ سند کے ضعف سے متن کا ضعف لازم نہیں آتا ۔۔۔۔ تو اسناد کی بحث سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا ہے ۔؟؟؟
باقی حضرت ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے
رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔ اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏
(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
باقی میرے محدث بھائی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟؟
امید ہے کہ آگر آپ اپنے مولویوں کی باتوں پر اندھادھند اعتماد کرنے کے بجائے اپنے نعرہ (کہ کسی کی تقلید نہیں بلکہ تحقیق کرنا چاہیے) پر عمل کرتے ہوئے تحقیق کی عادت ڈال لیں گے تو کئی ایک اشکالات آپ کے یوں ہی دور ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین

jihalat ki hadd hoti hy aur is jihalat par kitni akad hy dekho har jagah hadees ke muqable me imam ki been bajana had hy bhai

aap jesa jahil to my ne dekha hi nahi jab daleel na ban parhe to bad zubani par utar aate hu ye wateera hy ap logon ka

imaam ki been bajane ke elawa b kch kar lia karo Allah se daro aur quran aur hadees ki taraf laut aao yehi wahid najaat ka rasta hy

arbi matan puch lia to itna bhadak rahe ho aur aap to apne imaam se bhi aur apne aimma se bhi aage nikal gae asnaad sahi nahi to matan sahi waah kya aqal hy

bhai sahab jab asnaad hi sahi nahi to matan sahi hoga waah asal me aap muqqalidon ko kya lena hadeeson se aap to bas imam ki been bajana jaante hy aur apke lie to bas imam ka qaul hi hujjat hy daleel hy aap logon ko kya lena hadees se

rabban yahdeek[DOUBLEPOST=1349375638][/DOUBLEPOST]
مرد و عورت ہاتھ کہاں تک اٹھائیں
دلیل نمبر1
عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے۔‘‘
iska poora matan pesh karo aur iski sahat kia hy ye bhi batao phir iski asaliat my pesh karunga in sha Allah[DOUBLEPOST=1349375745][/DOUBLEPOST]
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔

is se kia sabit karna chahte ho aap?
isme aurat aur mard ka kahan zikar hy? tauba hy astaghfirullah
aur phir iska matan aur sanad kahannnnnnnnnnnnnnnnnn hy?????????[DOUBLEPOST=1349375891][/DOUBLEPOST]
مرد و عورت کے طریقہ سجدہ میں فرق
دلیل نمبر4
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)
ترجمہ: حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے۔

astaghfirullah isme aurat aur mard ka kidar farq bayan kia gaya hai??????????????
arbi matan aur sanaddddddddddddddd ???????????????
aur aqal to dekho copy past bhi theek se ny karne aata bhai daleel no 2 ke baad direct 4 alajeeeb konsi ginti hy ye[DOUBLEPOST=1349375952][/DOUBLEPOST]
دلیل نمبر5
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص631)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے۔‘‘

ye konsi hadees ki kitab hy??????????????????????[DOUBLEPOST=1349376042][/DOUBLEPOST]
دلیل نمبر6
عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔

ye na hadees hy na daleel aur iska na arbi matan poora hy aur na iski sanad
tauba hy aise dhoke bazon k lie
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
دلیل نمبر6
عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
دلیل نمبر7
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ۔
(سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود)
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
دلیل نمبر8
عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا۔
(مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔‘‘
دلیل نمبر9
عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ۔
(سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا۔
مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
دلیل نمبر10
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ … وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
(الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔‘‘
دلیل نمبر11
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
دلیل نمبر12
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
(جامع المسانید ج 1ص400 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے ؟
دلیل نمبر13
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
دلیل نمبر14
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
(التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
دلیل نمبر15
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ
(الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا)
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ
(1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
(الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔ (2) :
قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
(رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔ (3):
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
(کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔ (4):
قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
(الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘
astaghfirullah har jagah garhbar aur phir uspe nasir bhai ki akad la jawaab
bhai insaaf se poora arabi matan aur sanad pesh karo
aur baat sirf ahadees se karo apne imamo ka manmani qaul nahi phir my apki pesh karda daleelon ka jawab dunga

agr wo sahi hy tu my us par amal karunga in sha Allah
agr sahi nahi to phr aap ko sahi ahadees par amal karna hoga kya manzoor hy??????????????????
 
  • Like
Reactions: whiteros

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Asalam o alikum to all muslims
Y e samjha jata hay k ye farq sirf imam abu haneefa(RA) aor fiqa hanfi mie hay jabk ye farq tamam fiqa mie hay aor tamam ayema mard aor aurat ki nimaz main farq k qayel hain.
malaki 1.gif
malaki 2.gif
malaki 3.gif
malaki 4.gif
malaki 5.gif
malaki 6.gif
malaki 7.gif
malaki 8.gif
[DOUBLEPOST=1349377418][/DOUBLEPOST]
Asalam o alikum to all muslims​
malaki 9.gif
malaki 10.gif
malaki 11.gif
malaki 12.gif
malaki 13.gif
malaki 14.gif
malaki 15.gif
malaki 16.gif
malaki 17.gif
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Zee Leo

~Leo ! The K!ng~
Banned
Aug 1, 2008
56,471
23,637
713
Karachi
Aap Sab aik dosrey pe zati tanqeed se parhaiz karte huwe is masley ko continue karen. main us waqt tak thread close nahi karon ga jab tak zati tanqeed ya koi baat rule ke khilaf na dekhon. is ke ilawa aik dosrey pe ilzam tarashi ki surat main ub se next har post delete hogi. apna jawab daliel se den.. agar kisi ki baat ko jhutlana ya ghalat bhi kehna hai toe us ka jawab bhi sirf dalaiel se den .. shukrya
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔



yr sanan abu daud jild number one kitaabul salath main apki hadees mil hi nhi rhi apne yeh hadees kahan se parh ker likhi?

11111111111111111111111111.jpg


11111111111111111111111111.jpg
2222222222222222222222.jpg


3333333333333333.jpg


555555555555555555.jpg
66666666666666666.jpg


777777777777777777777777777777.jpg


yahan se dusra baab start hogaya hai lekin ap jo topic le kr aye hain woh topic sanan abu daud jild number one kitaab ul salaath main mil hi nhi rha[DOUBLEPOST=1349416676][/DOUBLEPOST]مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
دلیل نمبر10
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ … وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
(الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔‘‘
دلیل نمبر11
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
دلیل نمبر12
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
(جامع المسانید ج 1ص400 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے ؟
دلیل نمبر13
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
دلیل نمبر14
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
(التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
دلیل نمبر15
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ
(الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا)
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔



dustri bat main yeh kehna chahunga ke in main mustanind kitaaben yani sahi muslim or sahi bukhari ki ahadees se aurat or mardon k namaz main bethne ke farq ka zikar tak nhi lekin 2 ahadees main farq bataya gaya hai to woh ahadeesen kisi mustanind kitaab main hi shamil nhi[DOUBLEPOST=1349418371][/DOUBLEPOST]
مرد وعورت کی نماز میں تفریق اور امتیاز اگرچہ ہمارے نزدیک عورت کے امتیازی مسائل میں شامل نہیں- کیونکہ اس تفریق و امتیاز کی کوئی صحیح دلیل نہیں- لیکن چونکہ برادران احناف نے مرد اور عورت کی نماز میں تفریق کررکھی ہے، بنابریں اس کی اصل حیثیت کی
وضاحت ہمارے نزدیک ضروری ہے، اس لیے ذیل میں اس کی بابت بھی چند گزارشات اور احناف کے دلائل پر کچھ تجصرہ درج ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے اس کے مطابق احناف نے تین مسئلوں میں عورتوں کا مردوں سے مختلف طریقہ نماز بتلایا ہے-
٭ رفع الیدین میں، کہ مرد کانوں تک تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عورت کاندھے تک-
٭ عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف-
٭ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے جب کہ مرد کو حکم ہے کہ اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھے-
٭ پہلے امر کے متعلق ہماری نظر سے کوئی معقول دلیل نہیں گزری، جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے سواء قیاس کے کوئی دلیل نہیں-
چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں
" حنفیہ جو کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک، اس کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ ستر (پردہ) ہے- مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے-"
(فتح الباری، الاذان:2/287)
اور امام شوکانی لکھتے ہیں
" یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، اس کی بابت دونوں کے درمیان فرق کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے- اس طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صراحت منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک- حنفیہ کے اس مذہب کی کوئی دلیل نہیں ہے-"
(نیل الاوطار، باب رفع الیدین وبیان صفتہ مواضعہ: 2/206)
٭ دوسرے امر میں ہاتھ باندھنے میں احناف مرد وعورت کے درمیان جو تفریق کرتے ہیں، اس کی بھی کوئی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے- یہ بھی اس امر بین شہادت ہے کہ احناف کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے- اس لیے احادیث صحیحہ کی رو سے مرد و عورت دونوں کے لیے یہ ہی حکم ہے کہ وہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں-
مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم نے اپنی کتاب "اختلاف امت اور صراۃ مستقیم" میں سارا زور تیسرے فرق کے اثبات پر لگایا ہے- کیونکہ اس مسئلہ میں ان کے پاس ایک مرسل روایت اور ضعیف آثار ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرسل روایت محدثین اور علمائے محققین کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں- علاوہ ازیں یہ مرسل روایت بھی منقطع ہے اور اس میں ایک راوی (سالم) متروک ہے-
(ملاحظہ ہو: الجوھر النقی، تحت السنن الکبری، بیھقی، ج2)
٭ اس مرسل و منقطع روایت کے علاوہ مدیر "بینات" نے کنزالعمال کی ایک روایت بیہقی اور ابن عدی کے حوالے سے بروایت عبداللہ بن عمر رض نقل کی ہے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ
رانوں سے چپکالے- ایسے طور پر کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو-"
( ص:90-91)
یہ روایت سنن بیہقی میں موجود ہے لیکن موصوف نے یہ روایت سنن بیہقی کے بجائے کنز العمال کے حوالے سے نقل کی ہے- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سنن بیہقی میں اس کی سند بھی موجود ہے اور اس کی بابت امام بیہقی کی یہ صراحت بھی ہے کہ
"اس جیسی (ضعیف) روایت کے ساتھ استدلال نہیں کیا جاسکتا-"
(ملاحظ ہو، سنن بیہقی، ج2، ص:222-223)
بہرحال ارکان نماز میں مرد و عورت کے درمیان شریعت اسلامیہ نے کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا- بلکہ ایک عام حکم دیا ہے
{صلو کما رایتمونی اصلی}
"تم نماز اس طرح پرھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"
(صحیح بخاری)
اس حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں جب تک کہ کسی واضح نص سے عورتوں کی بابت مختلف حکم ثابت نہ کر دیا جائے- جیسے عورت کے لیے ایک خاص حکم یہ ہے کہ وہ اوڑہنی (پردے) کے بغیر نماز نہ پڑھے، اسی طرح حکم ہے کہ باجماعت نماز پرھنے کی صورت میں اس کی صفیں مردوں سے آگے نہیں، بلکہ پیچھے ہوں- اگر نماز کی ہیئت اور ارکان کی ادائگی میں بھی فرق ہوتا تو شریعت میں اس کی بھی وضاحت کردی جاتی- اور جب ایسی صراحت نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں تفریق کا کوئی جواز نہیں-
[DOUBLEPOST=1349350692][/DOUBLEPOST]




[DOUBLEPOST=1349351378][/DOUBLEPOST]
آپ لوگوں کی معلومات کیلئے بتاتا چلوں کہ حدیث میں اس طریقہ سے زمین پر ہاتھ بچانا منع ہے جس طرح کتا بچاتا ہے۔
بخاری و مسلم میں حدیث ہے
رواه البخاري ( 788 )
ومسلم ( 493 )
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سجدے میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی اپنے بازو کو (سجدے میں) اسطرح نہ بچھائے جسطرح کتا بچھاتا ہے۔"
حدیث میں أَحَدُكُمْ کا حکم عام ہے اور اس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نام پر کیا کیا بدعات کو پھیلایا جارہا ہے اور پھر مظلوم امام کی طرف الٹے سیدھے مسائل کو منسوب کیا جاتا ہے افسوس صد افسوس!!! احادیث سامنے موجود ہیں لیکن پھر بھی ان کے مقابلے میں آراء و اقوال کو مقدم کیا جارہے ۔ اس کا نتیجہ گمراہی ، بربادی، فرقہ پرستی اور تفرقہ کے علاوہ کیا نکلتا ہے جو آج ہم اپنے ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہیں۔
اللہ ہمیں قرآن وسنت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کو ناٍفذ کرنے کی توفیق دے۔ آمین
jabke lovely ne jo ahadeesen sahi muslim or sahi b ukhari ke hawalon se pesh ki hain ap khud bhi meri tarha in ahadeeson ki tasdeeq kar sakte hain yeh ahadeesen inhi kitaabon main inhi bataye gaye hawaalon ke sath mojod hain to mashAllah se ap log khud kafi zaheen hain ap logon ko khud andaza hona chahiye ke is tarha to to ap log sahi ahdeeson ke muqable main woh ahadeesen pesh kar rhe hain ke jin main aurat or mard ki namaz main farq sabit hi nhi horha or jin ahadeeson main farq sabit horha hai to woh ahadeesen sahi or mustanind ahadeeson ki kitaabon se hi sabit nahi horhi balke apne firqe ki hi kitaabon main hi payi jati hain to phir koi musalman rasool Allah SAW ki mustanind or sahi ahadeeson ko chor ker aisi ahadeeson per kaise yaqin kar lega jo mustanind kitaabon main mojod hi nahi?
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
Asalam o alikum to all muslims
مرد و عورت ہاتھ کہاں تک اٹھائیں
دلیل نمبر1
عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے۔‘‘
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔
مرد و عورت کے طریقہ سجدہ میں فرق
دلیل نمبر4
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)
ترجمہ: حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے۔
دلیل نمبر5
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص631)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے۔‘‘
دلیل نمبر6
عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
دلیل نمبر7
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ۔
(سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود)
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
دلیل نمبر8
عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا۔
(مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔‘‘
دلیل نمبر9
عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ۔
(سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا۔
مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
دلیل نمبر10
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ … وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
(الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔‘‘
دلیل نمبر11
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
دلیل نمبر12
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
(جامع المسانید ج 1ص400 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے ؟
دلیل نمبر13
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
دلیل نمبر14
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
(التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
دلیل نمبر15
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ
(الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا)
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ
(1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
(الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔ (2) :
قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
(رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔ (3):
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
(کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔ (4):
قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
(الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘

یہ پوری تحریر یہاں سے چاپ دی گئی
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
haayen to kya yeh silsila aisa hi chalta arha hai kya?
ke ek ne dusre se copy kya dusre ne teesre se copy kya teesre ne chohte se copy kya or isi tarha sab log ek dusre se copy kar ke pest karte rahe lekin parh ker tasdeeq karne ki zehmat kisi ne nhi ki ke aya jo main copy kr ke pest kar rha hon woh thik bhi hai ke nhi?
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔
yr sanan abu daud jild number one kitaabul salath main apki hadees mil hi nhi rhi apne yeh hadees kahan se parh ker likhi?
dustri bat main yeh kehna chahunga ke in main mustanind kitaaben yani sahi muslim or sahi bukhari ki ahadees se aurat or mardon k namaz main bethne ke farq ka zikar tak nhi lekin 2 ahadees main farq bataya gaya hai to woh ahadeesen kisi mustanind kitaab main hi shamil nhi
Asalam o alikum to all muslims​
محترم دیکھنے والی نظر چاہیے
ہو سکتا ہے کہ جو کتاب آپ دیکھ رہے ہیں اس میں جلد یا صفحہ نمبر مختلف ہے.
اور یہ حدیث صحیح بھی ہے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس کو صحیح کہتے ہیں.
sahi abudawood.jpg
sahi abudawood 1.jpg
اور یہ مسئلہ صرف امام ابوحنیفہ رھمہ اللہ کا نہیں بلکہ میں نے باقی ائمہ کرام کا مسلک بھی پیش کیا ہے تو ذرا اعتراض اس پہ بھی کئجیے کہ کیا وہ بھی قران اور حدیث کے مخالف ہیں.
masha Allah i love sahaba bhai kia bat hai dosron pr tanqeed krte hain ap... apne baray mai kia khayal hai apka????? bht buri bat hai....{}{5tr
@shizz

محترمہ میں نے یہ مضمون لولی کے بتائے ہوئے پیج سے نہیں لیا بلکہ کسی اور پیج سے لیا ہے .
بات حوالوں کی تھی اور حوالے احادیث کے دینے تھے وہ دے دئے.
ویسے ذرا لولی سے پوچھیں گی کہ اس نے کیا اس نے اپنا مضمون خود لکھا ہے یا کاپی کیا ہے.
لولی کے جتنے بھی ٹاپک ہیں تقریباً سب شاید صراط الہدی یا محدث فورم یا اردو مجلس کاپی شدہ ہیں.
اس ٹاپک کو لولی نے شاید صراط الہدی یا محدث فورم سے کاپی کیا ہے اور باقی ٹاپک بھی کسی نہ کسی فورم سے کاپی شدہ ہیں لولی سے ذرا پوچھیں کہ انہوں نے یہاں کون سا ٹاپک خود لکھا ہے
لولی نے یہ ٹاپک شروع کیا یہاں سے کاپی کر کے.
نماز کے مسائل
مسائل نماز شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی زبانی
یہ ٹاپک لولی نے پیش کیا جو کہ ہفت روزہ اہلحدیث کے جنوری 2008 کے شمارہ میں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فورم پہ بھی تھا جو کہ 2009 میں پوسٹ ہوا تھا.
اس کے علاوہ اردو مجلس پر بھی تھا اب لولی سے پوچھ لیں کہ اس نے کہاں سے کاپی کیا.
مناظرہ بين امام شافعى اور ابو يوسف حنفى
یہ ٹاپک لولی نے اردو مجلس سے کاپی کیا لیکن اس کے ساتھ یہ دھوکہ دیا کہ اس کی اگلی پوسٹ میں اس کا رد لکھا گیا ہے جس کو جناب نے پوسٹ نہیں کیا.
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس واقعے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور احناف کا رد ہوتا ہے جو کہ لولی کو بڑا پسند ہے.

میرے ایک مضمون پہ آپ کو اعتراض تھا لیکن اس سے ذیادہ اعتراض ذرا لولی پہ بھی کر دیں.
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس واقعے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور احناف کا رد ہوتا ہے جو کہ لولی کو بڑا پسند ہے

میرے بھائی پلیز ہر وقت الزام لگانا درست نہیں
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Asalam o alikum to all muslims
Lovely brother ilzaam nien lagaya. aap hi bataow k aap ne ye topic copy kiye hain ya khud likhy hain??????
aor doosry forum pe aap ahnaf ko khatme nabuwat ka munkir nahin kehty rahy kiya?????
imam shaafi(RA) aor imam abu yousaf(RA) ka topic aap ne urdu majlis se copy nahin kiya???????????????
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan
Top